تحریر: دانش عباس خان
مقدمہ:
اربعین ایک خوبصورت عدد ہے جسے چہلم بھی کہا جاتا ہے، ایک دلنشین آھنگ ہے جو زندہ دلوں پہ حکم فرما ہے، ویسے تو یہ شش حرفی عدد ہے مگر کائنات کے شش جہات کا قبلہ نما بن چکا ہے، بظاہر جغرافیائی اعتبار سے زمین کا ایک مختصر سا ٹکڑا ہے مگر تمام وسعت ارضی کو اپنےدامن میں سمیٹ لینے کو تیار ہے، کہنے کو تو ماضی کا دلخراش واقعہ اور کونچکاں منظر بیان کرتا ہے مگر ہر حال میں حالات پہ قابو پانے، دلوں کو منقلب کرنے اور ضمیروں کو زندہ کرنے، ادیان و مذاہب کو ایک کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہے تاکہ لیظھرہ علی الدین کله کا قرآنی وعدہ جلد صادق آئے۔
اربعین لغت و اصطلاح میں:
اربعین کا لغوی معنی چالیس ہے(۱) مگر اصطلاح میں شیعی نقطہء نظر سے کسی کی وفات کے چالیس دن پورے ہونے اور اس کی یاد میں اس دن سوگ منانے کو اربعین یا چہلم کہا جاتاہے، مگرخصوصیت سے اربعین کا اطلاق عاشورہ سے ۲۰ صفر المظفر تک چالیس دن پورے ہونے پہ نواسہء رسول امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کی یاد منانے اور ان کی قبر مطہر کی دور یا نزدیک سے زیارت کرنے کے روز کو اربعین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اربعین دینی متون میں:
اربعین عدد دینی متون میں مختلف زاویئے سے آیا ہے، کبھی زمانہ کا ذکر ہوتا ہے تو مثلا چالیس دن یا چالیس سال استعمال ہوتا ہے گویا کہ یہ زمانہ بندگان الہی کو چند روز کی محدودیت میں مسلسل ریاضت و عبادت اور توسل کی بنیاد پہ پروان چڑھا کر کل زمانے پہ محیط اور حالات پہ کار فرما بنا کر بندہء روزگار بنا دیتا ہے، یا یہ عدد کبھی افراد اور تعداد یا مکان و منزل کیلئے بھی استعمال ہوا ہے۔
قرآن مجید اور روایات معصومین(علیہم السلام) میں اربعین سے متلعق بندگان الہی اور خاصان خدا کے بارے میں مختلف خصوصیات مختلف زاویئے سے بیان ہوئی ہیں:
چالیس سال میں انسان اپنی نیک تربیتی اور تعلیمی ماحول کے سبب درک و فہم میں کامل ہو جاتا ہے۔(۱)
جب انبیاء و مرسلین نے اپنی قوم کے درمیان چالیس سال تک اپنے خلق و کردار کا لوہا منوالیا تب جاکر اپنی بعثت کا اعلان فرمایا۔(۲)
جب یونس پیغمبر نے شکم ماہی میں چالیس سال توبہ و استغفار کیا تو نجات کا سامان فراہم ہوا۔ (۳)
جب موسی کلیم اللہ نے چالیس رات طور سینا پہ میعاد الہی کو مکمل فرمایا تو صاحب کتاب قرار پائے۔(۴)
جب یوسف زہرا امام عصر(عج اللہ فرجہ) خداوند متعال کے حکم سے صدیوں کے بعد ظہور فرمائیں گے تو آپ چالیس برس کے جوان ہی دِکھائی دیں گے لہذا اس وقت اپنا تعارف اپنے جد امام حسین(علیہ السلام) سے کرائیں گے، اس وقت پورے عالم میں یہ آواز گونج اٹھے گی اور صاحبان شعور و ادراک سمجھ جائیں گے کہ یہ اسی کا لال ہے جس کے نام پر گلہائے ولایت کے پروانے انسانی، ایمانی اور مہدوی کردار و اخلاق کا نمونہ پیش کر رہے تھے۔
حوالہ جات:
(۱)سورہ احقاف/۱۵
(۲)بحار الانوار،ج۱۳،ص۵۰
(۳)سورہ انبیاء/۸۷
(۴)سورہ اعراف/۱۴۲
(۵)الزام الناصب،ج ۲، ص۲۳۳
جاری ہے ۔۔۔۔